کتاب : پاسبان حرم
تبصرہ: بنت الہدی فاطمہ
مولف: عطیہ بتول
فَالَّذِينَ هَاجَرُوا وَأُخْرِجُوا مِنْ دِيَارِهِمْ وَأُوذُوا فِي سَبِيلِي وَقَاتَلُوا وَقُتِلُوا لَأُكَفِّرَنَّ عَنْهُمْ سَيِّئَاتِهِمْ وَلَأُدْخِلَنَّهُمْ جَنَّاتٍ تَجْرِي مِنْ تَحْتِهَا الْأَنْهَارُ ثَوَابًا مِنْ عِنْدِ اللَّهِ وَاللَّهُ عِنْدَهُ حُسْنُ الثَّوَابِ
(القران)
سو جن لوگوں نے ہجرت کی اور اپنے گھروں سے نکالے گئے۔ اور میری راہ میں انہیں ایذائیں دی گئیں۔ اور (دین کی خاطر) لڑے اور مارے گئے، تو میں ان کی برائیاں مٹا دوں گا اور ان کو ایسے بہشتوں میں داخل کروں گا جن کے نیچے نہریں بہتی ہوں گی۔ یہ ہے اللہ کے ہاں ان کی جزا۔ اور اللہ کے پاس بہترین ثواب و جزاء ہے۔ قرآن میں خدا برحق شہداء کے اجر کو بیان کرتے ہوئے مخاطب ہے کہ جن کو میری راہ میں ایذائیں ملی انکا اجر ضائع نہ ہوگا۔شہداٸے مدافعینِ حرم ایسے جانباز و دلیر مرد مجاہد ہیں جو اپنی ذاتی خواہشات و لذتوں سے منہ موڑ کر سیدہ زینب سلام اللہ علیھا کے حرم کی نہ صرف پاسبانی کرتے ہیں بلکہ محافظت کرتے ہیں اور پھر اسی راہ میں دلیری سے لڑتے ہوئے جام ِشہادت نوش کرتے ہیں۔
مگر المیہ یہ ہے کہ ان کی قربانیوں و تکلیفوں کو انکا جرم قرار دیا گیا اور جو سرزمین ان کی اپنی ہے جہاں انھیں سراہا جانا تھا وہی سراہانے کی بجاٸے انھیں الزامات و تنبیہ کا سامنا کرنا پڑا۔آج بھی مدافعین حرم کے اہل خانہ کو نت نٸی تکالیف کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔یہ کتاب اُن عاشقانِ خدا کی داستانوں کا مجموعہ ہے جنہوں نے اپنی جان کا نذرانہ پیش کرکے سیدہ کے حرم کی حفاظت کی۔اس خوبصورتی سے الفاظ پروٸے گٸے ہیں کہ انسان خود کو عشاق الشہدإ کی وادی میں محسوس کرتا ہے۔ شہادت عشق ہے اور عشق قربانی مانگتا ہے کہ مصداق میں شہداء مدافعین حرم نے اپنی جان و مال کو سیدہ زینب کے حرم کے دفاع میں قربان کر لیا اور بدلے میں شہادت کو پا لیا۔شہادت مقصد نہیں ، راہ ہے عشق حقیقی تک پہنچنے کا۔جب ہم کسی خاص جگہ کسی خاص شخص کے پاس ملاقات کو جانا چاہتے ہیں تو ملنے کے اشتیاق و خوشی میں ہمیشہ چھوٹا اور آسان رستہ ڈھونڈتے ہیں تاکہ جلد پہنچیں۔عاشقِ خدا برحق شہادت کا انتخاب اس لیے کرتے ہیں تاکہ وہ پروردگار کے نزدیک ترین و خوبصورت ترین رستے کے ذریعے پروردگار کی بارگاہ میں جا پہنچیں جہاں وہ تکمیل روح کے مراحل طے کر کے سکون پا لیں۔پیشِ نظر کتاب پاسبان حرم شہداء مدافعین حرم و ملت تشیع کے حقیقی چہرے کو جاننے کے لیے نہایت ضروری ہے۔ہر فصل دوسری فصل سے یوں مربوط ہے کہ شہادت کے مفہوم کو باخوبی بیان کرتی ہے۔
جہاں عاشقان ِ خدا کا ذکر ہے وہیں ان کی خوبصورت مناجات کا ذکرکیا گیا ہے جس میں شہداء پروردگار سے اپنے عشق کا اظہار کرتے ہوئے دنیاوی لذتوں سے چھٹکارا پانے کے لیے پروردگار سے یوں مخاطب ہوتے ہیں:خدایا ۔۔!! دنیا سے وابستگی کو میرے وجود کی خاک میں خشک کر دے اور دنیاوی تعلق کو میںرے دل کی رگوں میں جلا دے۔یعنی اک شہید خدا سے اپنا آپ دنیا سے چھڑانے پہ بضد ہے تاکہ نفس کی اصلاح ہو سکے اور راہ پروردگار میں کامیاب ہو جائے۔مدافعین حرم کی مظلومیت یہ ہے کہ ان کی قربانی کو انکے خانوادہ کے لیے باعث رنج بنانے کی بھرپور کوشش کی جاتی ہے۔جہان والدین بہن بھائی ہمسر اپنے پیاروں کی شہادت کی تکلیف میں ہوتے ہیں وہاں اداروں کی جانب سے انکو بار بار دھمکیوں و انکے جوانوں کو جبری طور پر ماوراٸے عدالت لاپتہ کر دیا جاتا ہےاور جرم فقط یہ ثابت کیا جاتا ہے کہ انھوں نے سیدہ زینب س کے حرم کا دفاع کیا۔سیدہ زینب س کے حرم کا دفاع ہماری غیرت و ناموس کا مسئلہ ہے ہمارے اقدار کا مسئلہ ہے جس کی خاطر ملت تشیع کے جوان بوڑھے اپنی جان قربان کرنے کی خاطر سرزمین عشق یعنی دمشق جا پہنچتے ہیں اور مظلومیت کی انتہا یہ ہے کہ انکی لاش کو اپنی سرزمین کا مدفن بھی نصیب نہیں ہوتااور انکا جسد مطہر بھشت معصومہ(ایران) کی زینت بنا دیا جاتا ہے جن کے تشیع جنازے میں خانوادہ شریک نہیں ہو پاتا کہ اگران کی شرکت کی خبر بھی پیارے وطن کے رکھوالوں کو پڑ گئ تو یہاں جینا دوبھر ہو جائے گا۔آخر کیوں یہ سب کیا جاتا ہے؟کیا سیدہ زینب س کا دفاع آل رسول ص کا دفاع نہیں ہے؟کیا حضرت علی ع کی بیٹی کی محافظت اسلامی اقدار کا حصہ نہیں ہے؟؟مگر افسوس جوانوں کی قربانیاں اور انکے خلوص ،عشق کو انکے لیے سزا قرار دیا جاتا ہے لیکن مدافعین حرم و شہداء اس پہ فخر محسوس کرتے ہیں اور اپنا عشق یوں بیان کرتے ہیں کہ گویا اس جہان فانی میں عشق جیسی نعمت کوئی نہیں اور اس راہ میں ملی رکاوٹیں و رنجشیں عشق کا تحفہ محسوس ہوتی ہیں۔آج کلنا عباسک یا زینب کا نعرہ بلند کرتے یہ عشاق حرمِ آلِ رسول کا دفاع کرتے دیکھاٸی دیتے ہیں۔یہ جوان معاشروں کو شہادت کا درس دیتے ہیں اور شہادت کی ثقافت کو دوسری نسلوں تک منتقل کرتے ہیں۔ یہ کتاب مدافعان حرم اور حرم اہل بیت کے جانثاروں کی داستان ہے۔ اس قدر عمدگی اور خلوص کے ساتھ ان اوراق میں الفاظ پروٸے گٸے ہیں کہ پڑھنے والا خود کو شہدإ کی محفل میں محسوس کرتا ہے۔بلاشبہ شہدا کا تذکرہ دل ودماغ کو نورانیت اور پاکیزگی سے معطر کرتا ہے۔اس اہم موضوع پر قلم اٹھانے پر ہم خواہر عطیہ کو مبارکباد پیش کرتے ہیں۔پرودگار عالم اُن کی اس ادنی کاوش کو بارگاہ سیدہ میں قبول کریں آمین۔
سجاد کہ رہے ہیں شہیدان راہ حق
ہم شاہ پہ مر گئے ہیں ،مگر خیریت سے ہیں